تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
میرے امامؑ تیرا قرض مجھ پہ واجب ہے
مَیں تیرے عہد میں عہدٍ وفا نبھاؤں گا
یہ انتظار کی دولت نہیں ظہور سے کم
میں اہل دل میں یہیں نقدٍ جاں لٹاؤں گا
تیری غلامی پہ نازاں ہوں عصرٍ غیبت میں
تیرے ظہور سے پہلے مراد پاؤں گا
پوری دنیا میں 1190 واں حضرت امامٍ مہدی، حجتہ اللہ، خلف الصالح، صاحب العصر، صاحب الامر، والزمان القائم، الباقی اور المنتظر کا یوم ولادت باسعادت منایا جا رہا ہے۔ وہ وقت نہایت قریب ہے جب غیبت کے بادلوں سے نورٍ نگاہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، آفتاب امامت و ہدایت، وارث رسالت و نبوت حضرت امام مہدی(عج) کا ظہور پُرنور ہوگا۔ امام زمانہ کی آمد سے دنیا عدل و انصاف کا گہوارہ ہو جائے گا۔ پُر آشوب ماحول عیاں ہے۔ دنیا لہو لہان ہے۔ انسانیت سسک و بلک رہی ہے۔ انسان ظلم و جور، تشدد، بربریت و تشدد کا شکار ہو رہا ہے۔ حیوانیت عام لوگوں پر مسلط ہے۔ دہشت گردی مکار و فریبی حکومتوں کا اسلحہ ہے و منصوبہ کے طور پر انسانیت کے خلاف استعمال کیاجا رہا ہے۔ امن پسند حکومتوں و ملکوں کے خلاف شازشیں رچی جا رہی ہیں۔ صیہونیوں کے ظلم کے خلاف خاموشی ہے۔ عورتوں کی بے حجابی و بے پردگی، عصمتیں غیر محفوظ ہیں۔ مردوں کی غیرت نیلام ہو چکی ہے۔ رشتے دار رشتے داروں کے خون کے پیاسے ہیں۔ غریب و کمزور کے حق غصب کئے جارہے ہیں۔ وقف جائیداد کی لوٹ اور کم قیمت پر فروخت کی جا رہی ہیں، اس کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو غلط اور جھوٹے مقدمے میں گرفتاری کا سامنا ہے، انسانی حقوق کی پامالی عام ہے۔ اکثریت غربت کی شکار اور بے بسی میں مقید ہے۔ ظالم حکومت دوسرے ملکوں کو تباہ و برباد کر رہا ہے۔ ظالمین کے خلاف آواز کا ناتواں ہونا، ضمیر کا گروی ہونا، قلم اور فکر کا فروخت ہو جانا، حلال و حرام میں فرق ختم ہو جانا بے حسی کا شکار ہے۔ خوفٍ خدا نظر نہیں آرہا ہے۔ بندگی کی عبادت ہو رہی ہے۔ جھوٹ کو ہُنر سمجھا جارہاہے۔ بے ایمانی کو کامیابی کا ذریعہ سمجھا جا رہا۔ بے حیائی اور بے شرمی کو ترجیح دی جارہی ہے۔ جہالت سے غیر متوجہ ہیں۔ عبادت سے غفلت ہے۔ منصب پر مغرور ہے۔ دولت پر غرور ہے۔ نوجوان نسلیں گمراہی کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ بزرگوں کی نصیحت گراں گزرتی ہے۔ کچھ علماء و ذاکرین امر با لمعروف و نہی عن المنکر کی پیروی کرتے نظر نہیں آ رہے ہیں اور زیادہ تر بچے اپنے والدین کی خدمت کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھ رہے ہیں حالانکہ اس حقیقت سےبھی بخوبی واقفیت ہے کہ امام زمانہؑ کا ظہور ذوالفقار کے ساتھ ہوگا۔
لا ریب دورٍ حاضر میں اگر کوئی قوم سب سے زیادہ مسائل میں مبتلا اور مصائب میں گرفتار ہے تو وہ امت مسلمہ ہے۔ چنانچہ خود امام زمان کا فرمان ہے: "میری تعجیلٍ فرج کے لیے دعا کرو اس میں تمھارے لیے آسائش و آرام کا سامان ہے-"
اَلّلھُمَّ اکشٍفُ ھٰذٍہٍ الغُمَّہ مَن ھٰذٍہٍ الاُمّتہٍ بٍظُھُورٍہٖ
اے اللہ! حضرت حجت کے ظہور کے ذریعے سے اس اُمت کی پریشانیاں حل فرما۔"
چشم و چراغٍ دیدہؔ نرجس
عینٍ خُدا کی آنکھ کا تارا
بدر کمال نیمہؔ شعبان
چودھواں اختراج بقا کا
حامی ملّت ماحیؔ بدعت
کفر مٹانے خلق میں آیا
مورخین کا اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت 15؍ شعبان المعظم 255 ہجری یوم جمعہ بوقت طلوع فجر، سامراء(عراق) میں واقع ہوئی اور انگریزی کیلنڈر کے اعداد و شمار کے مطابق 869 عیسوی میں ولادت ہوئی۔ (دفیات الاعیان، روضتہ الاحباب، تاریخ ابن الوردی، تاریخ کامل طبری، کشف الغمہ، اصول کافی، نورالابصار اور ارشاد وغیرہ)۔
یا الٰہی مہؑدیم از غیبت آرا
تابگردو، در جہاں عدل آشکار
معزز قارئین کرام کے لیے امام عصر عجل اللہ تعالٰی الفرجک الشریف کی خصوصیات جیسے بلند اخلاق، علوم کی وسعت، زہد، صبر، شجاعت، سخاوت، عدل، انصاف، حق میں پائیداری، عبادت، غیبت صغریٰ، غیبت کبریٰ، اصحاب و انصار پر روشنی ڈالنا مقصود ہے۔
غیبت کبریٰ کیا ہے؟ غیبت کبریٰ شیعوں کے بارہویں امام (عج)کی طولانی مدت تک پوشیدہ زندگی گزارنے کو کہا جاتا ہے جو سنہ 329 ہجری یعنی آپؑ کی ولادت باسعادت کے 74 سال بعد آغاز ہوا جس کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور کب تک جاری رہے گا وہ صرف خالق کائنات کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں۔ غیبت کبریٰ کے مقابلے میں غیبت صغریٰ ہے جس کی مدت مختص تھی اور 70 سال بعد ختم ہوئی جس کے خاتمہ کے بعد غیبت کبریٰ شروع ہوئی۔
عام طور پر مومنین کو معلوم نہیں ہے۔ لہٰذا یہ تحریر کرنا لازمی ہے کہ اصحاب، اعوان و انصار میں کیا فرق ہے؟ امام(عج) کے حوالے سے ہمیں منمبر، محراب، مصلے، نذر و نیاز میں کس طرح دعائیں کرنی چاہیے؟ اگر اصحاب، اعوان و انصار کا مفہوم معلوم ہو تو آسان ہو جائے گا۔امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی الفرجک الشریف کے منتظر میں رہنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ امام عج کے اصحاب کی کل تعداد تین سو تیرہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کو امام علیؑ ابن ابی طالبؑ اور امام جعفر صادقؑ نے "اصحاب الالویہ" فرمایا اور اشارہ دیا کہ ان میں لشکر کی قیادت کی تمام تر صلاحیتیں اور اہلیتیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں اور امام الصادق علیہ السلام نے فرمایا "وَھُم حُکَّام اللہ فٍی اَرضٍہٖ" اور وہ خدا کی زمین پر اس کے بنائے ہوئے حکمران ہیں۔ اس عدد اور اسم گرامی میں قطعی فرق و تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
انصار سے مراد وہ نیک مومنین ہیں کہ جو مکہ وغیرہ میں امام مہدی علیہ السلام کے لشکر کے ساتھ ملحق ہو جائیں گے اور خدا و رسول کے دشمنوں سے جنگ کریں گے۔ یہ قابل ذکر ہے کہ آپؑ مکہ سے دس ہزار انصار کی ہمراہی میں عدل و انصاف قائم کریں گے۔ یہ بھی تحریر ہے کہ سید ہاشمی بارہ ہزار ساتھیوں سمیت عراق میں امام مہدی عج سے ملحق ہو جائیں گے۔ یہ سب امام عج کے وہ انصار ہوں گے جو اوامر اور تعلیمات پر مکمل طریقے سے عمل پیرا ہوں گے۔ اعوان لفظ عون کی جمع ہے جس کا معنی ہے بہت سے حامی اور مددگار۔
راقم الحروف ہزاروں اوراق گردانی کے بعد یہ تحقیق اور نتیجے تک نہیں پہنچ سکا کہ آخر 313 کے عدد میں کیا راز و نیاز ہے؟ جنگٍ بدر میں رسولؐ خدا کے اصحاب 313 تھے۔ بعض روایات کے مطابق امام حسینؑ کے ہمراہ کربلا میں شہید ہونے والوں کی تعداد بھی 313 تھی۔ اسی طرح امام مہدی عج کے مخصوص اصحاب بھی 313 ہوں گے۔ یہ اس وقت زمین پر سب سے زیادہ نیک ہوں گے اور ان میں تمام مطلوبہ صلاحیتیں موجود ہوں گی اور وہ اپنی تمام سرگرمیاں امام مہدی عج کی قیادت، ارشادات اور تعلیمات کے تحت انجام دیں گے۔ یہ دنیا کے مختلف گوشوں سے اور مختلف علاقوں اور قبائل سے خدا کے منتخب کردہ بندے ہوں گے۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے خطبتہ البیان میں ان لوگوں کے نام اور ان کے علاقوں کے نام موجود ہیں۔ (آیت اللہ سید کاظم قزوینی، امام مہدیؑ ولادت سے ظہور تک، صفحہ نمبر 329)
ہادی دوراں، حجت خدا، صاحب العصر و الزماں، منجیٍ عالم بشریت حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی ذات والا صفات نا صرف اس دنیا میں موجود ہے بلکہ کسی نہ کسی ذریعہ سے ان کی ذات بابرکات اہل دنیا کے لیے ہدایت و رہنمائی کا سبب بھی ہے۔ دنیا کے اختتام و قیام قیامت سے قبل اللہ تعالٰی کی طرف سے اس آخری حجت اور بقیتہ اللہ کا ظہور پُر نور واقع ہوگا اور آپ دنیا سے ظلم و جور کا خاتمہ کر کے اسے عدل و انصاف اور امن و آشتی کا گہوارہ بنا دیں گے۔ آپؑ پوری دنیا میں اسلام کا نفاذ فرمائیں گے اور یوں آپؑ کے زمانہ میں دینٍ الٰہی دنیا کے تمام ادیان پر غالب آجائے گا۔
ہر صاحبٍ عقل اس کا اقرار کرے گا جبکہ صادق و مصدق نبیﷺ کا یہ قول بھی گواہ ہے "جو بھی اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مر گیا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے" اس بات کی طرف خصوصی توجہ رہے کہ ایک زندہ امام کی موجودگی کا احساس عقیدہؔ مذہب کو ایسی بے نیازی اور حیات جاوداں عطا کرتا ہے کہ جو صاحبانٍ عقل و بصیرت سے مخفی نہیں ہے۔
لفظ مہدی کی تعبیر میں یہ نکتہ بھی پوشیدہ تھا کہ وہ ایسا ہادی ہوگا جو اپنی رہنمائی میں کسی کا محتاج نہ ہوگا بلکہ اسے پروردگار عالم کی طرف سے ہدایت حاصل ہوگی اور وہ دنیا کی ہدایت کا فرض انجام دے گا۔
لفظ مہدی کے نام سے یہ بات امت اسلامیہ میں اس قدر واضح تھی کہ ہر دور کے مسلمان کو ایک مہدی کی تلاش تھی اور بسا اوقات تو ایسا بھی ہوا ہے کہ لوگ خود ہی مہدی بن گئے یا سلاطینٍ زمانہ نے اپنی اولاد کے نام مہدی رکھ دیئے تاکہ امت کے درمیان جانے پہچانے نام سے فائدہ اُٹھایا جا سکے۔ اور انھیں یہ سمجھا جا سکے کہ جس کی آمد کی خبر سرکارٍ دو عالم ﷺ نے دی تھی وہ مہدی میرے گھر میں پیدا ہو چکا ہے۔ کچھ ایسا ہی سلسلہ عنوان "قائم" بھی تھا جس کا تذکرہ روایات میں بار بار وارد ہوا ہے۔
یہ امام عصرؑ کے منتظرین کے لیے جاننا ضروری ہے کہ ان کا عصرٍ غیبتٍ امامؑ میں کیا ذمہ داریاں ہیں؟ امامؑ کی غیبت کبریٰ میں یہ ذمہ داریاں ہیں کہ جدائی اور مظلومیت پر غمگین، انتظارٍ ظہور، مصیبت میں گریہ، سر تسلیم خم، ظہور کی باتوں میں عجلت سے پرہیز، امامؑ کی طرف اپنے اموال ہدیہ کرنا، سلامتی امامؑ کے لیے صدقہ دینا، صفات امامؑ کی معرفت حاصل کرنا، اور اللہ پاک سے معرفت امامؑ طلب کریں۔ امام جعفر الصادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپؑ کے لیے دعا پڑھیں اور دعا کریں۔
ایسا لکھنا نہایت اہم ہے کہ منتظرین آگاہ ہوں کہ امام زمانہ کا نام مبارک نہ لیا جائے اور وہی نام ہے جو رسول خداﷺ کا نام ہے لہٰذا امامؑ کو ان القاب سے پکارا جائے مثال کے طور پر القائم، المنتظر، الحجتہ، المہدی، الامام، الغائب وغیرہ۔ ایسا اس لیے کہا گیا ہے کہ دشمنوں کو آپؑ کے نام سے آشنائی نہ ہو کیونکہ آپؑ کی زندگی کو خطرہ ہو جائے گا۔
صرف منمبر، محراب، نذر و نیاز میں دعا کرنا کہ امام عصرؑ کہ اعوان و انصار میں شمار ہوں بلکہ آپ کے ساتھ جہاد میں شامل ہونے کے لیے سامان تیار رکھنا، اپنی مشکلات میں امام سے توسل کرنا، امام کی دعاؤں میں اپنا شفیع قرار دینا، اپنے دین پر ثابت قدم رہنا، دیگر ادیان کی پیروی سے اجتناب کرنا، اور غیبت امام میں مومن کے لیے بہترین عمل یہ ہے کہ اپنی زبان کی حفاظت کریں اور کنارہ کشی کریں یعنی سوائے ضرورت کے عام معاشرے سے دور رہیں کیونکہ معاشرے کی ضرورت سے امام کی یاد سے غافل کر دیں گی۔
اوپر درج کے علاوہ، امامؑ کے جلد از جلد ظہور کی دعا کرنا، اللہ سے فتح و نصرت طلب کرنا، دشمن پر لعنت کرنا، صلوات بھیجنا، فضائل و مناقب بیان کرنا، آپؑ کے جمال مبارک کو حقیقت میں دیکھنے کا اشتیاق رکھنا، آپؑ کے آباؤ طاہرین کی معرفت اور خدمت کو دعوت دینا، اذیت پر صبر کرنا یہ سبھی اہم فرائض ہیں جو امام عصر کی غیبت میں انجام دینا چاہیے۔
یہ کوئی معجزہ نہیں بلکہ حقیقت ہے جو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ راقم اپنے 2013 کا ایران سفر کا واقعہ مومنین کے لیے تحریر کرنا چاہتا خاص طور سے ان کے لیے جو امام زمانہ عج کے ظہور کی تعجیل کے لیے دعا کرتے ہیں۔ اختتام سفر پر تہران سے امام خمینی انٹر نیشنل ایئر پورٹ کی طرف ٹیکسی رواں و دواں تھی۔ راستے میں ایک نہر دکھاتے ہوئے عالم دین نے مخاطب کرتے ہوئے کہا، ڈاکٹر صاحب اسے دیکھئے، اس نہر کو۔ میں نے کہا، قبلہ یہ تو سوکھی ہوئی نہر ہے۔ قبلہ نے بتایا، ڈاکٹر صاحب جب امام عج، وارث ذوالفقار کا ظہور ہوگا تب اس سوکھی نہر میں خون کی روانی ہو گی۔ میں نے سوال کیا، قبلہ ایران تو اکثریتی شیعہ ملک ہے تو پھر ایسا کیوں؟ جی ہاں، کچھ مخالفت میں ہوں گے، خروج کریں گے اور ذوالفقار ان کے گلے پر ہوگی۔ علاوہ ازیں، اسی سفر کے دوران راقم نے امام عصر عجل اللہ تعالٰی الفرجک الشریف کے حکم سے بنائی گئی مسجد، جمکران میں نماز ادا کی اور دعائیں کی تب سے الحمدللہ اپنے آپ میں روحانی طور پر کافی تبدیلی پائی۔
410 ہجری میں شیخ مفید علیہ الرحمتہ کی طرف امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی لکھی گئی ایک توقیع مبارک سے اقتباس۔۔۔۔۔تم میں سے ہر ایک ایسا کام کرے کہ جو اسے ہماری محبت اور دوستی سے نزدیک کرے اور ایسے کام سے اجتناب کرے کہ جو اسے ہماری نا پسندیدگی اور غضب سے قریب کرے اس لیے کے ہمارا امر بالکل اچانک آن پہنچے گا کہ جس وقت توبہ و بازگشت کا فائدہ نہ ہوگا اور گناہ سے پشیمانی ہمارے عقاب سے نجات نہیں بخشے گی۔ خداوند تمھیں رشد و ہدایت کا راستہ دکھائے اور اپنی رحمت و توفیق کے وسائل آسانی کے ساتھ فراہم کرے۔ (احتجاج طبرسی، جلد 2، صفحہ 498؛ موعود قرآن، صفحہ 100)
اپنے امام عصرؑ کے اس مبارک پیغام کو 1190 ویں ولادت باسعادت کے پر نور موقع پر علماء کرام، ذاکرین، اور شعراء کرام منمبر، محراب، نذر، نیاز، تقریر و منقبت کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پھیلائیں اور کم از کم کسی ایک مومن تک پہنچا کر خوشنودیٔ امامؑ حاصل کریں۔ آخر میں معزز قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امامؑ کی خط کے متن کو تدبر و تفکر سے مطالعہ کریں اور آپؑ کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے اپنے اندر صفات حمیدہ اور اخلاق کریمہ پیدا کریں!
العجل جو کہتے ہیں آگئے تو کیا ہوگا
کیا ہے اپنی تیاری پیش ہم کریں گے کیا